Tuesday 28 June 2011

زاهد آزاد(गजलें) غزلين

غزلين
  زاهد آزاد(गजलें) 
जाहिद आजाद झन्डा नगरी -नेपाल 
Mobile: 00977-9747089206
کہاں عبور دلوں کے       یہ فاصلے ہوں گے
قدم قدم پہ غلط فہمیاں!             گلے ہوں گے
کسے خبر تھی یہی صبر کے صلے ہوں گے
تمام عمر ہی غم سے           مقابلے ہوں گے
نہ تاج سر پہ سجاتے           اگر یہ جانتے ہم
بدن پہ چیتھرے اور وہ بھی بے سلے ہوں گے
نگاہ فکر میں ہو گ          ا ترا سراپا ضرور
ورق ورق پہ جو غزلوں کے گل کھلے ہوں گے
کشادہ اور کرو دیکھ             دیار دل کی حدیں
بڑھیں گے آگے اگر دل    سے دل ملے ہوں گے
نہیں ہوں کافلہ سالار       میں مگر آزادؔ
مری تلاش میں اک روز قافلے ہوں گے


-----------------------


اے شاید کوئی غیبی           اشارہ ہو گیا ہے
جو تھا تاریک ورشن وہ ستارہ     ہو گیا ہے
مجھے لگتا   ہے اس کا غرق ہونا لازمی ہے
بہت تعریف جس کی کر رہا تھا میں غزل میں
بہت ناراض          وہ ہی ماہ پارہ وہ گیا ہے
گذرتے وقت        کے ہمراہ دیکھو سردمرے
سلگتا تھا جو      دل میں وہ شرارہ ہو گیا ہے
میرا ضبط       وتحمل ہے کہ اب تیری انا کا
مرے قدموں         تلے اونچا منارہ ہوگیا ہے
کرشمہ ہے         نئی سائنس کا شاید یہ زاہدؔ
نجوم وماہ کا          واضح نظارہ ہو گیا ہے

ہیں زخم آگہی کے ابھی تک ہرے ہرے

غزل

زاہد آزاد جھنڈانگری۔نیپال

برپا ہوئی ہے کیسی قیامت ارے          ارے
انساں ہیں سہمے سہمے تو حیواں ڈرے ڈرے
ہیں زخم آگہی کے ابھی          تک ہرے ہرے
لب پہ تبھی تو آئے ہیں    فقرے کھرے کھرے
وہ ولولے وہ ذوق               سفر کون لے گیا
اٹھ تو رہے ہیں پاؤں مگر      کچھ مرے مرے
اک مرے حق میں سچی      گواہی کی بات تھی
اترے دوزع کوئی یہ        کیسے کھرے کھرے
ہم میر سی غزل تو           نہیں کہہ سکے مگر
الفاظ میں معنی پھر               بھی بھرے بھرے
مجروح چہرے لیکے         کہاں جائیں گے زاہدؔ
رہتے ہیں آئینے تو             ہم سے ڈرے ڈرے

نیپال کا سنجیدہ فکر شاعر : زاہد آزادؔ جھنڈا نگری

اسلم ملک
نزد علامہ اقبال ہاسٹل ،
مسجد اہلحدیث، علی گڑھ

(بوئے گل)
نیپال کا سنجیدہ فکر شاعر

زاہد آزادؔ جھنڈا نگری
زاہد آزاد جھنڈا نگری کرشنا نگر کپل وستو ،نیپال کا ایک ہونہار اور ابھرتا ہوا شاعر ہے۔ وہ لائق ستائش اس لیے ہے کہ ایک سنگلاخ زمین میں ادبی شگوفے کھلنے کی اس نے امید باندھی ہے اور فن کمالات کے حصول کی تمنا کی ہے۔ اگر بات صرف تمنا ہی کی ہوتی تو بھی قابل ذکر تھی کہ تمنا ایسی جگہ کی جارہی ہے جہاں لطافت فکر و خیال کی گنجائش نہیں ہوتی اور تمنا ایسی لطیف شئے کی طرف جارہی ہے جو سنگلاخ ماحول کو راس نہیں آتی۔
جناب زاہد صاحب نے اس سرا کو پکڑا یعنی نیپال کے غیر ادبی ماحول میں ادب کو پروان چڑھائیں اور فکر و خیال کی رعنائیاں عام کریں اور اس سرے کو پکڑے انہوں نے عزم کرلیا کہ ادبی ایورسٹ کی مسلم دنیا جوئیوں کو سر کرڈالیں گے۔ نیپال کی سنگلاخ سرزمین میں ادبی کا شت کی خواہش ان کی کمزوری بھی ہے اور خوبی بھی کمزوری بایں معنی کہ وہ نیپالی شناخت کے حوالے سے شاعری کرنا چاہتے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں کتنی ہی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اپنی نیپالی ادبی شناخت بنانے کے پیچھے کیا راز ہے وہ وہی جانیں لیکن ان کے عزائم سے جو کچھ پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ اردو کا علم اس سرزمین پر بھی لہرائیں۔ گویا صعوبتو ں کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی انھیں یہی پسند ہے ظاہر ہوکہ آسانیوں کا راستہ اپنانے کے بجائے صعوبتوں کا راستہ بسا اوقات اس لیے اپنایا جاتا ہے کہ انسان کی کوئی رگ ہوتی ہے جو مجبور کرتی ہے مشکلات کی راہ اپنانے پر اورانسان انہیں جھیلنے پر مجبور ہوتاہے۔
اور نیپالی ادبی شناخت بنانے کا زاہد کا عزم ظاہر ہے لائق ستائش ہے اگر کوئی شخص اپنی راہ نکالے غیروں کی بنائی راہ پر چلنا اسے پسند نہ ہو تو یہ خوش آئند بات ہے لیکن واضح رہے کہ اپنی راہ نکالنا آسان نہیں ہے اس کے لیے بہت ریاض اور محنت درکار ہے۔ انسان اگراتنا ریاض کرسکتاہے کہ وہ اجنبی راہ پر چل کر اسے لالہ زار بنادے تاکہ دوسروں کے لیے مانوس ہوجائے تویہ عظیم کارناموں میں شمار ہوگا اور عظیم لوگوں نے ہمیشہ عظیم کارناموں کو انجام دیاہے۔
زاہد کے اندر نیپال کی سرزمین میں ادبی راہ نکالنے کا کتنا یارا ہے یہ تو وہی بتا سکیں گے اور وہ اس پر چل کر دکھا سکیں گے یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا البتہ ان کے حوصلے بلند ہیں اور انتظار کریں گے کہ کب اس راہ کو طے کریں گے اور آگے نکل جائیں گے۔
زاہد کو نیپال کے اردو شاعری کے لالہ وگل کے کھلنے کی جو تمنا ہے یا وہ جس طرح کا سنہرا خواب دیکھ رہے ہیں اس کے لیے ان کے پاس جواز بھی ہے ان کا یہ خواب محض روز روشن میں خواب دیکھنے کے مترادف نہیں ہے نہ یہ خواب خواب پریشاں ہے۔ دراصل ان کو موزونی طبع ملی ہے یا شاعری کا انہیں جو شعور ملاہوا ہے اس کے ساتھ اس شعور کو پروان چڑھانے کے اسباب بھی میسر ہیں۔
دراصل زاہد آزاد ایسے گھرانے کے چشم وچراغ ہیں جس میں کم از کم چار پشتوں سے شعور وآگہی سے بہرہ مند رہیں ۔ دینی شعور وآگہی کے ساتھ ادبی شعور سے اس گھرانے کے کئی افراد مالا مال تھے ۔ پردادا، دادا ،کئی چچا اور چوتھی پشت میں کئی بھائی و عم زاد کو بھی ادبی ذوق وشعور ملا ہے۔
نیپال کے اس کپل وستو علاقے میں جو ہندوستان کے ضلع سدھارتھ نگرکے حدود سے ملحق ہے میاں محمد زکریا خاندان اپنی شرافت، ضیافت ،دین داری اور علم کی قدردانی میں مشہور ہے میاں صاحب نے زندگی کا طویل عرصہ دین اور فارسی ادب پڑھانے میں گذار دیا اور دو دو تین تین پشتوں کو اس طرح پڑھایا کہ ان پر اپنا نقش چھوڑ کے رہے ۔ ان کی شرافت اور نجابت کا ایک زمانہ قائل رہا۔ ان کے اعلیٰ اخلاق اور تربیتی شعور و ذوق سے بے شمار لوگ فیض یاب ہوئے۔
زاہد صاحب کے تین چچا عالم دین اور خود ابا جان دینی شعور اور ادبی ذوق سے بہرہ یاب ہیں اور براد راکبر مولانا عبداللہ جھنڈا نگر صاحب جامعہ سلفیہ ، ندوہ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فیضیافتہ اور سند یاب ایک معروف عالم دین ہیں اور شعر گوئی کا اچھا سلیقہ اورذوق رکھتے ہیں، کلاسیکل شاعری، ترقی پسند اور معاصر شاعری کو انہوں نے پڑھا ہے، مشہور شعراء کے دواوین کا انہوں نے بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے او ر ان کے ذوق ادب وارفتگی اور ستھرے پن کا یہ حال ہے کہ غزلوں کے اچھے اشعار ان کے ذہن سے چپک جاتے ہیں۔ کبھی بھی دیوان کو پڑھنے کے بعد غزلوں کے خوبصورت اشعار کو نہایت لطافت اور سبک روی کے ساتھ سناتے ہیں۔ جناب نے اب تک شاعری کو زہد کے خلاف سمجھ رکھا تھا لیکن ایک شر کی بریزی سے یہ خیر درآمد ہوا کہ انہوں نے شاعری شروع کردی۔
جناب زاہد آزاد صاحب خود سند یافتہ عالم ہیں، عربی فارسی اور اردو زبانوں سے آشنا ہیں۔ لڑکپن سے دل عاشقانہ ہے اور یہی وجہ شاعری ہے، دل میں ہے آگ برابر لگی اس لیے انہیں دل کی لگی کو بجھانے کے لیے فکر شعر کرنا پڑتا ہے اور یہی ان کے لیے نشاطِ تازہ کا بہانہ بھی ہے۔ اس دل عاشق نے انہیں شاعری کی راہ دکھلائی اور ارباب فن سے ملنے اور ان سے مستفید ہونے کے لیے ہاتھ پکڑ کر ان کے پاس لے گئی ، اسی نے ان کی ادبی جہت کو متعین کیا، دل کو اگر عشق کا روگ لگ جائے تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے اس سے کم از کم ایک تو یہ فائدہ ہوتا ہی ہے کہ اس سے انسان کے اندر مقصد سے والہانہ لگاؤ ہوجاتا ہے، اندرونی تڑپ اور جذبے کی تعبیر کے لیے شاید عشق کا لفظ سب سے زیادہ مناسب ہے اور انسان کے والہانہ احساسات وجذبات کا بہترین ترجمان ہے۔
سن شعور ہی سے زاہد صاحب شاعری کا قلم سنبھالے ہوئے ہیں ۱۹۸۶ء ؁ سے وہ شاعری کر رہے ہیں اور اب تک انہوں نے دو سو غزلیں رقم کی ہیں۔ غزل کہنے کو انسان وقت گزاری کے لیے بھی کہتا ہے اور شوقیہ بھی کہتا ہے لیکن زاہد صاحب کے لیے شاعری کرنا ان کی ضرورت بن گئی ہے اگر وہ شاعری نہ کریں تو شاید ان کی زندگی کی رعنائی ختم ہوجائے ، وہ رعنائی خود اپنی غزل گوئی ہی سے برقرار نہیں رکھتے بلکہ وہ مشاعروں کے انعقاد کا جو کھم بھی برداشت کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے اب تک چار آل انڈیا پیمانے کے مشاعروں کا بھی انعقاد کیا ہے ۱۹۸۹ء ؁ اور ۱۹۹۲ء ؁ میں دو مشاعرے نیپال میں اور اپنے آبائی وطن قصبہ کرشنا نگر سے ملحق ہندوستانی قصبے بڑھنی میں دو مشاعرے ۱۹۹۸ء ؁ اور ۲۰۰۲ء ؁ میں ان کی کوششوں سے ہوئے زاہد صاحب نے دو عالمی مشاعروں میں انبالہ اور دہلی میں شرکت کی ہے اور صف اول کے ہندو پاک شعراء سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے ان کے اعزاز میں بنارس، علی گڑھ، پاکستان، کاٹھمنڈو، دبئی اور مدینہ میں ادبی نششتیں ہوئی ہیں ۔
جناب زاہد صاحب نے صحافت کا بھی ڈول ڈالا ہے نیپال سے انہوں نے ایک رسالہ شمع نیپال نکالنا شروع کیا ، پھر برادر اکبر کے ماہنامہ رسالہ نور توحید سے وابستہ ہوگئے اور اب تک اس سے وابستہ ہیں ۔ محدث، آثار اور دیگر ہفت روزہ ادبی رسالوں میں انہوں نے رپورٹر اور مضمون نویس کی حیثیت سے مضامین اور رپورٹیں شائع کرائیں۔
ان کا کلام ہندو پاک کے وضع دار ادبی رسالوں میں چھپتا ہے پاکستان لنک (امریکہ) اردو میگزین (جدہ) آواز (لندن) میں بھی ان کی غزلیں چھپتی ہیں۔
زاہد صاحب کا اصل میدان غزل ہے ۔ غزل گوئی سے انہیں انتہائی لگاؤ ہے۔ دینی پس منظر کا فنکار کسی ادبی جتھے سے وابستہ نہیں ہوتا اس کا وسیع ذہنی افق اس کی طبع نشاط دیگر کسی طرح کی حد بندی گوارا نہیں کرتی اور بڑی اہم بات یہ ہے کہ غزل گوئی اصلا دل کی آواز ہوتی ہے اس کے لیے کسی طرز خاص کی پابندی مناسب بھی نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ انسانی بھاؤنا مذاقہ بڑی حد تک یکساں ہوتے ہیں شرطیکہ وہ کسی آلودگی کا شکار نہ ہوگئے ہوں اس سے آگے مسئلہ تعبیرات کا آہنگ کا لب و لہجہ کا اور لسانی رموز کا ہوتا ہے جو ارتکاز ومزاولت کے بعد نکھرتے جاتے ہیں اس طرح فکر و خیال اور زبان و بیان دونوں ارتقاء پذیر رہتے ہیں لیکن اگر طبیعتیں کسی بندی کا شکار ہوجائیں اور کسی ریت اور طرز سے وابستگی کو حاصل فن سمجھ بیٹھیں تو پھر ادبی وفنی نحو و ارتقاء کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
غزل گوئی سب سے آسان فن شاعری ہے اور سب سے مشکل بھی ہے آسان بایں طور ہے کہ روایتی طور پر اگر قافیہ بندی اور موزونیت ہی حاصل شاعری سمجھ لیا جائے تو غزل سے آسان کوئی صنف سخن ہے ہی نہیں اس لیے کہ چند موزوں بند تراش لینا جس میں ہر بند جدا دنیا رکھتا ہے تھوڑی سی صلاحیت کا متقاضی ہے اور غزلوں کا طول طویل دفتر اور روایتی معانی و خیال کسی بھی شخص کو متشاعر بنا سکتے ہیں آسانی مزید حاصل ہوسکتی ہے اگر نقل اور سرقہ کی عادت بن جائے۔
غزل مشکل ترین صنف سخن ہے بایں طور کہ غزل گوئی کے لیے جس ذاتی تجربے کی ضرورت ہے اور اس کی تعبیر کے لیے جس پیراہن کی ضرورت ہے وہ اتنا مشکل ہے کہ سالہا سال کی مزاولت اور محنت کے بعد بھی اس پر گرفت آسان نہیں ہے اس کے لیے ذہن میں رشیکار، دل میں آتش سوزاکی کی ضرورت ہے اگر دل میں تجرباتی بھٹی نہ لیتے تو اچھے فکر و خیال اور دلکش معانی نہیں ڈھل سکتے جب مختلف بھاؤنائیں باہم ٹکراتی ہیں یا آپ بیتی وجگ بیتی کی آنچ ان تک پہنچتی ہے اس وقت غزل کے شہ پارے بنتے ہیں اس کے لیے جگر کاری درکار ہے اور خون دل جلانا ہوتا ہے تب غزل بنتی ہے اور شاعر کا اپنا لب و لہجہ بنتا ہے اور ذہن اس کے لیے حسین وخوبصورت لفظی پیراہن تلاش کرتا ہے اور اصول و فنی التزام ووابستگی اسے اعتبار عطا کرتی ہے ؂
زاہد صاحب غزل کو مشکل صنف مان کر چلتے ہیں اس لیے کہ اگر وہ غز ل کو آسان صنف سخن مان کر چلیں تو یہ ماننا ہوگا کہ وہ خود کو کھوٹا ماننے پر کمربستہ ہیں اور غزل کو اہم ترین مشکل ترین صنف تسلیم کرلینا بذاتہ اس کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہے بعض نقاد اسے وحشی صفت سخن کا نام دے گئے جو بدیس فکر و خیال اور ذوق ادب کا نتیجہ تھا ۔ ظاہر ہے ہر زمانے کے اصناف ادب کی اپنی الگ شکل و صورت اورمعانی و بیان ہوتا ہے اور اس کے جدا خصائص و امتیازات ہوتے ہیں اگر ان کو نظر انداز کر دیا جائے اور دوسری زبانوں کو پیمانہ بنا کر رد و قبول کا فیصلہ کیا جائے تو یہ کسی بھی زبان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی۔
زاہد صاحب کی غزل گوئی کس اہمیت کی حامل ہے یہ قابل غور ہے ان کی غزل گوئی کا محور غزل کی اصل شناخت ہے۔ انہیں کرب آگہی حاصل ہے غم دوراں غم حیات اورغم ذات کا اسی کرب آگہی کے حوالہ سے ادراک حاصل ہے اسی ادراک کو وہ تجرباتی رنگ دے کر غزل کی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔
زاہد کی ادبی تجرباتی زندگی یا غزل گوئی کی عمر کئی سالوں پر پھیلی ہے ان کی غزلوں کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزل گوئی میں کسی حد پر کھڑے نہیں ہوئے ہیں ان کے فکر و نظر کا عمل مسلسل جاری ہے ۔ شاعر اگر کسی بندی یا خود پرستی کی اپنی خود ساختہ سرحد پر کھڑا ہوجاتا ہے تو اس کی فکری اور تجرباتی قوت ختم ہونے لگتی ہے ایسا حادثہ شعرا کو اکثر درپیش ہوتا ہے جس سے ان کی شعری توانائی زائل ہوکر رہ جاتی ہے اس حادثے سے اکثر وہ لوگ گزرتے ہیں جو فیشن کے طور پر شعر کہتے ہیں یا بوجھ اتارنے کے لیے شاعری کرتے ہیں ۔
زاہد صاحب کی غزلوں کو پڑھنے سے مجموعی تأثر یہ بنتا ہے کہ وہ فکر سخن کے تقاضوں کو ملاحظہ رکھتے ہیں اور برابر فکری فن نمود ارتقاء کے فکر مند ہیں۔ یہ فکر مندی انہیں مطالعے اور اضافے میں لگائے رکھتی ہے اور تجربات کو نئے کلام میں اپنے کلام کو باوزن و باوقار بنانے کا جتن کرتے رہتے ہیں۔
ہر دور کی ایک فکری فنی پہچان ہوتی ہے اوراس پہچان کو اعتبار اس وقت ملتا ہے جب وہ اپنے ماضی سے جڑی رہے اگر یہ سرا ماضی سے کٹ جائے تو یہ پہچان بے اعتبار اور بے جان ہوجاتی ہے روایت اور بغاوت کا یہ قضیہ انسانی طبیعت کا تقاضا ہے جو ان دونوں کا تال میل آپس میں قائم کر لے جاتے ہیں وہ معتبر فن کار ہوتے ہیں اور کسی ایک کو اپنا لیتے ان کا باہمی تال میل قائم نہیں رکھ پاتے وہ فن کے معتبر ڈگر سے اتر جاتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے فنی و فکری شعور مہارت کی ضرورت ہے اور مختلف ادوار ہیں فن کاروں کے فنی و فکری عمل کی اہمیت و حیثیت کو پیش نظر رکھنا مطلوب ہے۔
زاہد ان نزاکتوں کا شعور رکھتے ہیں ان کے مدنظر یہ ہے کہ ماضی سے ان کا فنی رشتہ بھی استوار رہے اور حال کی آگہی تجربات اور لب و لہجے سے بھی بہرہ ور رہیں۔
ادبی فن پارے اگر ادبی نزاکتوں اور تقاضوں کے آئینہ دار ہوں تو وہ خود ایک فنی حقیقت بن جاتے ہیں اور ادبی حقیقت علمی و دینی حقائق سے جدا اپنا وجود رکھتی ہے یہ جزوی احساسات اور تجربات کی دنیا ہے یہاں خیالات کی نیر نگیاں اوراحساسات کے طلسمات ہی اصل کمال ہیں انہیں سے زندگی میں رعنائی اور حسن پیدا ہوتی ہے اگر انہیں علمی و دینی حقائق کے طور پر دیکھا جائے تو پورے کاروبار ادب و فن کو تباہ و برباد کرنا ہوگا۔ ادب زندگی کے تنوع گوشوں میں سے حسن ولطافت کے گوشے سے تعلق رکھنا اسے اس طرح برتنا بھی چاہیے اسے اس کے دائرہ کار سے نکال کر زبردستی اس سے پروپیگنڈہ کا کام لیا جائے یا اسے تربیت و تزکیہ کا کام لینے کے لیے اسے باوضو بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ بھی زیادتی ہوگی۔ بے شک ا س سے زلاقہ اور فحاشی کا کام بھی نہیں لیا جاسکتاتاکہ اس سے انسانی فکرو حیات اور بھیرہ عمل کے لیے فتنہ کا کام لیا جائے ادب ایک انسانی عمل ہے اس لیے اسے انسانی و دینی و فطری اقدار کے تابع بن کر رہنا پڑے گا اگر اسے یہ پابندی بھی گوارا نہیں تو یہ ادب نہیں بے ادبی ہے ہر قوم و ملت کا اہم سرمایہ اس کے اپنے ترجیحی دینی انسانی اور فطری اقدار ہوتے ہیں اگر ادبی عمل کے لیے اس سے ہوتے بغاوت کا مظاہرہ یا ادعا ہو تو ایسا ادب ناکام ہوگا اس ضمن میں ترقی پسند ادب جدیدی ادب یہ سب نہ اردو داں طبقے کے احساسات اور جذبات کے ترجمان ہیں نہ ان کے دینی انسانی اور فطری اقدار کے نمائندہ یا ان سے ہم آہنگ ہیں یہ سب خود رو پودے اور رساوری مال ہیں جن کا اردو داں طبقہ خریدار نہیں۔
اس کے برعکس اگر کسی دین پسند طبقے کے سامنے ادب اور فنون کی بات ہوتو ایسا لگتا ہے اسے ان سے سوکنا پے کا رشتہ ہے انہیں یہ زہد کے خلاف سمجھتے ہیں کسی بھی ثقافت و تہذیب اور شائستہ کے لیے ادب ایک زینت ہے اور ادبی ذوق ، لسانی سلیقہ مندی اور نتھرے ستھرے شعور کے بغیر کسی بھی زبان کا عالم و فاضل با ذوق اور مثقف عالم فاضل ہوہی نہیں سکتا۔
زاہد عالم دین ہیں لیکن وہ اس افراط اور اس تفریط سے محفوظ ہیں انہیں ادبی ذوق اور موزوں طبیعت ملی ہے اس سے وہ خود محظوظ ہوتے ہیں اوردوسروں کو بھی محظوظ کرنا چاہتے ہیں ۔
آج مشاعروں کی کثرت ہے اور متشاعرے بھی کثرت سے ہوتے ہیں اور متشاعر و متشاعرات نما مشاعروں اورشعراء و شاعرات کی کثرت ہے ان سے فن کی خدمت تو نہیں ہو پارہی ہے اور نہ ان سے لسانیات کو کوئی نمو و ارتقا مل رہا ہے اگر انہیں اس حد تک برتا جائے کہ موزوں یا نیم موزوں وہ کم ازکم اردو زبان میں پکار تو لگا رہے ہیں اور وہ زبان جس کا گلہ گھونٹنے کے لیے سماجی قانون اور اقتصادی سارے حربے اختیار کر لیے گئے اور ظلم و ستم کے سارے وار کر لیے گئے حق تلفی کی ساری ادائیں دکھلائی گئیں یونیورسٹی، کالجوں اسکولوں اور اکیڈمیوں میں اردو کی روٹی کھانے والے بھنور میں پھنسے محسوس کرتے تھے وہ ساحل بکند ہوگئے اور اپنی اولاد کو اردو کے خوفناک مستقبل سے خوف دلا کر اس بھنور سے نکال لے گئے اور اردو کو پیٹھ دکھلا دیا اور جو باقی ہیں ان کی اکثریت اردو کے گھر جمائی دامادوں کی ہے ان حالات میں اردو کا متشاعر اور متشاعرہ اردو کے کسی نیم خواندہ یونیورسٹی پروفیسر لکچرر اور ریڈر سے زیادہ اردو کی خدمت کررہی ہے اور اس کے دم سے اردو کی خدمت بایں طور زیادہ ہو رہی ہے جو ہر سال مشاعروں میں ہزاروں لاکھوں ہندوستانیوں کو اردو کا گرویدہ بنا دیتا ہے یا اردو سے ان کا رشتہ جوڑ دیتا ہے۔
ان تلخ و شیریں حقائق کی روشنی میں زاہد اردو کے مخلص خادم ہیں اور بلا صلہ خادم ہیں بقراطی سقراطی اردو دانشوروں سے کہیں اچھے جو محض کوششوں اور تجربوں کے موضوع ہیں آج کی زبان کا تعلق اگر سماجی عمل اور روزی روٹی سے کٹ جائے تو اس کا زندہ رہنا محالات میں شامل ہوجاتا ہے لیکن اردو غزلوں کی رعنائی وطاقت موسیقت نے اسے زندہ بچا رکھا ہے اور غزل کی اپنی یہ جو خاصیت ہے کہ دکھی انسان کے احساسات کو اپنے دامن میں بڑی آسانی اور خوبصورتی سے سمیٹ لیتی ہے اس کمال حسن کے سبب بھی اسے بقا کی ضمانت ملی ہوئی ہے آج اگر اردو اصناف ادب سے غزلوں کو نکال دیا جائے تو اس کی شہرت اور زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
زاہد کی غزل گوئی نے اردو غزل گوئی میں کیا قابل ذکر اضافہ کیا ہے ان کے تجرباتی افکارو معانی کی اہمیت کتنی ہے اور کس قدر پرکشش وجذاب ہیں لطافت و کیف پیدا کرنے کی ان کے اندر کتنی صلاحیت ہے ان کے ادبی و شعور و اداراک میں کتنی توانائی اور گہرائی ہے ، وقت کی جو معروف تعبیرات یا رنگ و آہنگ ہیں ان کو وہ اپنے کلام میں کتنا برسا پارہے ہیں یہ اور اس طرح کے سوالات کسی بھی سنجیدہ غزل گو کی غزل گوئی کے متعلق اٹھنا چاہیے تاکہ انہیں پیمانہ بنا کر کلام کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جاسکے۔
ان کو پیمانہ بنا کر زاہد آزاد کے کلام و افکار کا جائزہ لینا چاہیں تو احتیاط کے ساتھ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان تمام تجرباتی گذرگاہوں سے حوصلے کے ساتھ گذر رہے ہیں اور ان کا حوصلہ برقرار رہتا ہے اور مطالعے و جستجو کی لو مدھم نہیں ہوتی ہے تو وہ ایک اچھے شاعر بن سکتے ہیں ان کے اندر غزل گوئی کے سارے اوصاف موجود ہیں ، انہیں پوری توجہ سے کام میں لانے کی ضرورت ہے۔
جناب زاہد صاحب موزونئی طبع سے بہرہ ور ہیں زبان کی نزاکتوں سے بھی آشنا معلوم ہوتے ہیں تخیل بھی میسر ہے عصری آگہیوں اور کربناکیوں کا شعور بھی رکھتے ہیں داخلی تجربات کرنے کے لیے نازک احساس ان کے ہاں موجود ہے تعبیرات کی لطافت سے بھی بہرہ مندہیں۔ پس ضرورت ہے کہ ان تمام خام مواد کو اپنے شعور واحساسات کے کارگاہ میں سلیقہ سے ڈھال لیں تاکہ دور حاضر کے انسانی احساسات کا ترجمان بننے کی راہ نمودار ہو جائے۔ ان کسوٹیوں اور معیار پر پورا اترنے کے لیے زاہد آزاد کی جدو جہد جاری رہے اور شعرو شعور کی منزلیں طے ہوتی رہیں یہی راہ ادب کا زاد سفر ہے ۔ کسی دن اگر غزل گو کو یہ احساس ہوجائے کہ اس نے آخری منزل کو چھولیا تو یہ اس کے فنی و ادبی ارتقا کا آخری دن ہوتا ہے۔
ان تمام مسائل سے قطع نظر آئیے ذرا جناب زاہد آزاد کے کلام کے نمائندہ اشعار کا مطالعہ کیا جائے تاکہ عملی طور پر ہمیں ان کی خوبیوں یا خرابیوں کا اندازہ لگ سکے۔
تو مرے حق میں کوئی نیک فال دے مولا

کبھی تو بخت کو میرے اجال دے مولا
نہ کوئی چاند نہ سورج ہو اس قدر روشن

مرے عمل کو وہ حسن جمال دے مولا



ہیں کاسہ لیس وہ حاشیہ بردار ہر طرف

حق بات کہہ سکے گا بھلا کوئی لب کہاں
اب کامیابیاں تو صرف سفارش کا کھیل ہیں

حق دار لوگ ہوتے ہیں اب منتخب کہاں



اب نہ لفظوں میں وہ دم خم ہے نہ قلم میں تیور

وقت کے خوف سے اظہار کفن زخمی ہے
رقت آمیز ہیں اشعار تیرے اے زاہدؔ

مدتوں سے تیرے نغمے کا لحن زخمی ہے



ابن قاسم کی ضرورت ہے زمانے کے لیے

فتنۂ شیطان کو جڑ سے مٹانے کے لیے
آج ہے ارض فلسطیں میں قیامت کا سماں

پھر صلاح الدین آئیں حق دلانے کے لیے
اب نہ پیشانی ہے زاہد کی نہ غازی کا جگر

دل ہے بزدل جسم میں بس خوف کھانے کے لیے
کنارے جالگے گی کشتی اردو زباں طے ہے

نہ آئے گا آندھی کے زد میں مرا بادباں طے ہے
اسی رفتار سے تیرا سفر جاری رہے گا تو

ضرور اک روز پالے گا تو منزل کا نشاں طے ہے
خالی مساجد کو دیکھ کر زاہد آزادؔ نوحہ کناں ہیں ؂
مسجدوں میں اپنی پیشانی تو اب جھکتی نہیں

جبہ سائی ہے مگر ہر آستانے کے لیے



اپنی خود پہچان ہمیں ہیں

لفظوں کے سلطان ہمیں ہیں
دانا سب کو کہتے ہیں ہم

یعنی بہت نادان ہمیں ہیں



یہ گماں تھا کبھی پائیں گے حوادث سے نجات

اب تو گزرے ہوئے لمحات نظر میں بھی نہیں
ہم سے ہے تیز ہواؤں سے رقابت زاہدؔ

ہم تو مصروف چراغوں کے سفر میں بھی نہیں



رہا میرے برسوں سمندر برابر

ہیں لب جیسے صحرا برابر برابر
میں قطرہ ہوں زاہدؔ یہ تسلیم مجھ کو

مری وسعتیں ہیں سمندر برابر



زاہد صاحب کو اس دور آگہی کے انسانوں کی اپنی ذات سے بے خبری کی کربناکیوں کا پورا احساس ہے اور اس کی المناک خود پرستی اور حصار ذات کا زندانی ہونے کی کہانی کا بھر پور اندازہ ہے بلکہ انہوں نے ان کے تئیں کمروں کے قریب محسوس کیا ہے لیکن وہ حالات کی تحیرزائی اور اندو ہناکی سے اندوہگیں نہیں ہوئے بلکہ ان کا انداز مسکرا کر ان کا سامنا کرنے کا ہے ایسا لگتا ہے وہ تھپیڑوں سے کھیلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور شب تاریک میں بھی کرن کی تلاش کرلیتے ہیں۔
معجزہ مجھ کو دکھاتا ہے یہ دن رات قلم

اک نئے طرز میں کہتا ہے ہر اک بات قلم
عکس کاغذ پہ دکھاتا ہے جو مجھ کو میرا

کیا پتہ جان گیا ہو مری اوقات قلم

زمیں پر آسماں سا تھا

زمیں پر آسماں سا تھا
حامد سراجي

اگرچہ دیکھنے میں وہ نحیف و ناتواں سا تھا
مگر افغانیوں کی سرزمیں پر آسماں سا تھا

اک ایسا شخص جس کو ڈھونڈھتے تھے مل کے دیوانے
سراغ اس کا نہیں پاتے تو گڑھ لیتے تھے افسانے

وہ جس کو زندگی میں عیش کے ساماں میسر تھے
مگر جو خواب تھے اس کے وہ کچھ اس سے بھی بڑھ کر تھے

اسی اک فکر میں گھٹ گھٹ کے وہ ہر روز جیتا تھا
مصائب دیکھ کر کڑھتا، جگر کا خون پیتا تھا

دبا کچلا سا اک طبقہ مسلماں جس کو کہتے ہیں
جہاں میں ہر طرف مظلومیت کے ساتھ بستے ہیں

متاع سرفرازی سے وہ مالا مال ہو جائیں
نکل کر قعر ذلت سے سبھی خوش حال ہو جائیں

اسے اک انسیت سی تھی پہاڑوں کی چٹانوں سے
کبھی دب کر نہ رہ پایا ستم کے پاسبانوں سے

رفاقت اس کو حاصل تھی جفاکش نوجوانوں کی
مدد ملتی رہی اس کو ہمیشہ مہربانوں کی

اسی نے سرخ ریچھوں کو شجاعت سے پچھاڑا تھا
اسی نے روسیوں کے کبر کا حلیہ بگاڑا تھا

ضیائے حق کا منصوبہ عمل میں لانے والا تھا
چراغ اشتراکیت دھواں دینے ہی والا تھا

وہ افغانی جیالوں کے لئے مرد مسلماں تھا
وہ جس کی شاہ بازی سے نظام کفر حیراں تھا

وہ فرعون زماں کے حق میں موسیٰ بن کے آیا تھا
جفا و جبر کے سینے پہ گھونسا بن کے آیا تھا

پرستاران مکر و وہم جس سے خوف کھاتے تھے
تصور میں جو آجاتا، لرزتے کانپ جاتے تھے

شب تاریک ’’فائیوٹو‘‘ کی اک تاریخ بننی تھی
مروت، آشتی، تہذیب کی دنیا اجڑنی تھی

نہتے شخص پر گولی چلائی تھی جیالوں نے
ہر اک قانون کی دھجی اڑائی تھی جیالوں نے

سپر پاور کا یہ شب خون کتنا جارحانہ تھا
خبر اتنی اچانک تھی کہ حیرت میں زمانہ تھا

دیار پاک کے حکام تھے بے بس تماشائی
مسلح فوج کی طاقت ذرا سا بھی نہ کام آئی

اسے درد و الم سے رستگاری مل گئی آخر
خزاں کے دور میں باد بہاری مل گئی آخر

اسے معلوم تھا پہلے ہی، اس دنیا سے جانا ہے
مگر تم کتنے پانی میں ہو، اب دنیا نے جانا ہے

سنائیں کس کو حامدؔ داستان وحشت دنیا
یہ امریکی تمرد ہے، سنے گی کیوں اسے دنیا

اسامہ

اسامہ
حامد سراجی

اسامہ
عہد حاضر کا
اک ایسا نام نامی تھا
ان گنت جیالوں کے

دلوں میں بس رہا تھا جو
وہ جس کے قلب مضطر میں
بس اک سودا سمایا تھا
کہ وہ طاقت جو تاجِ تمکنت پہنے
ابو لہبی اداؤں پر فدا ہوکر
مثال ہٹلر و چنگیز
بنی آدم کے ہر طبقہ کو زیر دست کرنا چاہتی ہے
اسی کی ناک شدت سے کچھ اس انداز میں رگڑے
کہ اس کی بلبلاہٹ سے
سبھی چھوٹے بڑے قارون اور نمرود کانپیں
درس عبرت لیں، حقیقت اپنی پہچانیں
یہ جانیں
کہ جفا و جبر کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوتا
مگر اک بات
جس کی معرفت سے عمر بھر قاصر رہا تھا وہ
کہ مقصد جس قدر بھی نیک ہو
ارفع ہو، اعلیٰ ہو
ہمارا دین اسلامی
کبھی اس کی اجازت دے نہیں سکتا
ہدف کے پانے کی خاطر جو بھی چاہیں اس کو کر گزریں
ہراک اقدام جائز ہو
ہمارا دین اسلامی ہمیں پابند کرتا ہے
مگر کوئی مبصر، یہ بھی ممکن ہے، کہ فرمائے
میاں! اعمال اس کے، جو اگر چہ غیر صائب ہوں
مگر سب اجتہادی تھے
خطا پر، مجتہدتو مستحق اجر ہوتا ہے
ہے کچھ امکان اس کا بھی، جہاں دیدہ کوئی ارشاد فرمائے
کہ مثل گربہ مسکین، جس کے سامنے ہر راستہ محدود ہوجائے
وہ مجبوری کے عالم میں
کبھی بھی شیر کی آنکھوں میں پنجے گاڑ سکتا ہے
بجا ہے! پھر بھی کچھ محتاط رہ کر
وہ تعامل کا طریقہ سیکھ لیتا
تقاضے سرفروشی کے نظر انداز نہ کرتا
تو ایوبی صفت سے متصف ہوکر
وہ اپنے اس زمانے کا صلاح الدین بن جاتا