Tuesday 28 June 2011

اسامہ

اسامہ
حامد سراجی

اسامہ
عہد حاضر کا
اک ایسا نام نامی تھا
ان گنت جیالوں کے

دلوں میں بس رہا تھا جو
وہ جس کے قلب مضطر میں
بس اک سودا سمایا تھا
کہ وہ طاقت جو تاجِ تمکنت پہنے
ابو لہبی اداؤں پر فدا ہوکر
مثال ہٹلر و چنگیز
بنی آدم کے ہر طبقہ کو زیر دست کرنا چاہتی ہے
اسی کی ناک شدت سے کچھ اس انداز میں رگڑے
کہ اس کی بلبلاہٹ سے
سبھی چھوٹے بڑے قارون اور نمرود کانپیں
درس عبرت لیں، حقیقت اپنی پہچانیں
یہ جانیں
کہ جفا و جبر کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوتا
مگر اک بات
جس کی معرفت سے عمر بھر قاصر رہا تھا وہ
کہ مقصد جس قدر بھی نیک ہو
ارفع ہو، اعلیٰ ہو
ہمارا دین اسلامی
کبھی اس کی اجازت دے نہیں سکتا
ہدف کے پانے کی خاطر جو بھی چاہیں اس کو کر گزریں
ہراک اقدام جائز ہو
ہمارا دین اسلامی ہمیں پابند کرتا ہے
مگر کوئی مبصر، یہ بھی ممکن ہے، کہ فرمائے
میاں! اعمال اس کے، جو اگر چہ غیر صائب ہوں
مگر سب اجتہادی تھے
خطا پر، مجتہدتو مستحق اجر ہوتا ہے
ہے کچھ امکان اس کا بھی، جہاں دیدہ کوئی ارشاد فرمائے
کہ مثل گربہ مسکین، جس کے سامنے ہر راستہ محدود ہوجائے
وہ مجبوری کے عالم میں
کبھی بھی شیر کی آنکھوں میں پنجے گاڑ سکتا ہے
بجا ہے! پھر بھی کچھ محتاط رہ کر
وہ تعامل کا طریقہ سیکھ لیتا
تقاضے سرفروشی کے نظر انداز نہ کرتا
تو ایوبی صفت سے متصف ہوکر
وہ اپنے اس زمانے کا صلاح الدین بن جاتا

No comments:

Post a Comment