Tuesday 28 June 2011

زمیں پر آسماں سا تھا

زمیں پر آسماں سا تھا
حامد سراجي

اگرچہ دیکھنے میں وہ نحیف و ناتواں سا تھا
مگر افغانیوں کی سرزمیں پر آسماں سا تھا

اک ایسا شخص جس کو ڈھونڈھتے تھے مل کے دیوانے
سراغ اس کا نہیں پاتے تو گڑھ لیتے تھے افسانے

وہ جس کو زندگی میں عیش کے ساماں میسر تھے
مگر جو خواب تھے اس کے وہ کچھ اس سے بھی بڑھ کر تھے

اسی اک فکر میں گھٹ گھٹ کے وہ ہر روز جیتا تھا
مصائب دیکھ کر کڑھتا، جگر کا خون پیتا تھا

دبا کچلا سا اک طبقہ مسلماں جس کو کہتے ہیں
جہاں میں ہر طرف مظلومیت کے ساتھ بستے ہیں

متاع سرفرازی سے وہ مالا مال ہو جائیں
نکل کر قعر ذلت سے سبھی خوش حال ہو جائیں

اسے اک انسیت سی تھی پہاڑوں کی چٹانوں سے
کبھی دب کر نہ رہ پایا ستم کے پاسبانوں سے

رفاقت اس کو حاصل تھی جفاکش نوجوانوں کی
مدد ملتی رہی اس کو ہمیشہ مہربانوں کی

اسی نے سرخ ریچھوں کو شجاعت سے پچھاڑا تھا
اسی نے روسیوں کے کبر کا حلیہ بگاڑا تھا

ضیائے حق کا منصوبہ عمل میں لانے والا تھا
چراغ اشتراکیت دھواں دینے ہی والا تھا

وہ افغانی جیالوں کے لئے مرد مسلماں تھا
وہ جس کی شاہ بازی سے نظام کفر حیراں تھا

وہ فرعون زماں کے حق میں موسیٰ بن کے آیا تھا
جفا و جبر کے سینے پہ گھونسا بن کے آیا تھا

پرستاران مکر و وہم جس سے خوف کھاتے تھے
تصور میں جو آجاتا، لرزتے کانپ جاتے تھے

شب تاریک ’’فائیوٹو‘‘ کی اک تاریخ بننی تھی
مروت، آشتی، تہذیب کی دنیا اجڑنی تھی

نہتے شخص پر گولی چلائی تھی جیالوں نے
ہر اک قانون کی دھجی اڑائی تھی جیالوں نے

سپر پاور کا یہ شب خون کتنا جارحانہ تھا
خبر اتنی اچانک تھی کہ حیرت میں زمانہ تھا

دیار پاک کے حکام تھے بے بس تماشائی
مسلح فوج کی طاقت ذرا سا بھی نہ کام آئی

اسے درد و الم سے رستگاری مل گئی آخر
خزاں کے دور میں باد بہاری مل گئی آخر

اسے معلوم تھا پہلے ہی، اس دنیا سے جانا ہے
مگر تم کتنے پانی میں ہو، اب دنیا نے جانا ہے

سنائیں کس کو حامدؔ داستان وحشت دنیا
یہ امریکی تمرد ہے، سنے گی کیوں اسے دنیا

No comments:

Post a Comment